Best try on Chrome browser.
مدیحہ چدوا کر اور خوب ڈسچارج ہو کر بچھی کو پیار کر کے، شاور لے کر چلی گئی جبکہ میں ایک بار بھی ڈسچارج نہیں ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ بچھی تھک کر سوئی ہوئی ہے تو میں اس کو ساتھ لپٹا کے لیٹ گیا۔ مجھے بھی نیند آ گئی لیکن جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ بچھی میرے لوڑے کا چوپا لگا رہی ہے۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور پھر اس کی خون آلود چوت میں لوڑا گھسیڑ دیا۔ اس کی چوت میں جاتے ہیں میں نے زور شور سے اسے چودنا شروع کر دیا۔ آدھے گھنٹے کی مسلسل چدائی کے بعد بچھی تو جیسے پاگل ہو گئی وہ کہتی جا رہی تھی کہ بہنوئی صاحب اور زور سے اور زور سے۔ اتنے میں میرے فون پر برہ کی کال آئی تو بچھی کو میں نے کہا کہ تم کال اٹینڈ کرو اور باجی سے بات کرو۔ اس نے فورا کال اٹینڈ کی اور برہ سے بات کرنا شروع کر دی۔ میں تھا کہ اندر باہر اندر باہر کر رہا تھا۔بچھی نے چسکے لے لے کر سارا واقعہ بتایا اور میں محسوس کر رہا تھا کہ عامر بھائی اور فرح باجی بھی سن رہے تھے۔ انہوں نے ساری سٹوری سنی اور بہت پسند کی اور کہا کہ اب واپس آکر تم بھی اس ٹیم کا حصہ بن جاؤ گی کیونکہ اب ہم دونوں بہنیں پریگننٹ ہو چکی ہیں اور تم ہی اپنے دونو بہنوئیوں کو سنبھالنا۔ بچھی نے دونوں بہنوں سے کہا کہ فکر نہ کریں میں سنبھال لوں گی دونوں بہنوئیوں کو۔ فرح باجی کہنے لگی کہ اگر تم نے احمد کو سنبھال لیا ہے تو عامر کو سنبھالنا ذرا بھی مشکل نہیں ہو گا۔ کیونکہ ان کا لمبا ہے موٹا نہیں اور اب کہیں جا کر احمد نے عامر کی ٹائمنگ بڑحائی ہے ورنہ عامر تو پانچ منٹ میں فارغ ہو جاتے تھے۔ جس پر بچھی نے بتایا کہ ساری رات میری اور مدیحہ کی چدائی کرنے کے باوجود بھائی جان احمد ڈسچارج نہیں ہوئے اور اب پھر میری چدائی کر رہے ہیں۔ پھر بچھی نے رنگین بیڈ شیٹ دکھائی تو برہ نے کہا کہ یہ بیڈ شیٹ اپنے ساتھ لے آنا اور دھونی نہیں ہے اسی پر تمہاری چھوٹی بہنوں کی سیل توڑی جائے گی۔ بچھی نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے۔ میں اپنی دھن میں بچھی کی پھدی مار رہا تھا جو اب مزید کنواری نہیں رہی تھی۔ اب مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں ڈسچارج ہوں کے قریب ہوں تو برہ نے کہا کہ ہمارے سامنے ڈسچارج ہونا ہے اور احتیاط کریں اندر نہیں ہونا میں نے کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ میں اس معاملہ میں کتنا محتاط ہوں اور ویسے بھی میرے لیے ڈسچارج ہونا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ پھر میں نے ایک زور دار چدائی کی اور بچھی کے پیٹ پر اپنی منی نکال دی جس پر فرح باجی نے بچھی سے کہا کہ یہ ساری پروٹین پی جاؤ اور بچھی نے پروٹین سے بھرپور میری ساری منی بڑے مزے سے اٹھا کر منہ میں ڈالی ور نگل گئی۔ اس کے بعد ہم ایک دوسرے س لپٹ کر سو گئے۔ اگلے دن ہمیں دن کے بارہ بجے کے بعد جاگے اور میں نے دیکھا کہ میرا لوڑا ٹنا ٹن تنا ہوا ہے لیکن بچھی آرام سے گہری نیند سوئی ہوئی ہے۔ میں نے اٹھ کر ناشتے کا آرڈر دیا اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ہی ایک رشین ویٹریس ناشتے کی ٹرالی لے کر مسکراتی ہوئی آ گئی اور کہنے لگی کہ صاحب آپ باہر کیوں؟ میں نے کہا کہ میری سالی اندر لمبی چدائی کے بعد سو رہی ہے اس لیے میں باہر کھڑا ہو گیا کہ تم بیل دو گی تو وہ جاگ جائے گی۔ پھر وہ ٹرالی اندر لے آئی اور رنگین چادر دیکھ کر مسکرائی اور میری طرف شرارتی آنکھوں سے دیکھ کر کہنے لگی کہ مسٹر آپ نے تو خون خرابہ کر دیا اور ہوٹل کی چادر رنگین کر دی۔ میں نے کہا کہ تم یہ دیکھو کہ ساری رات دو پھدیاں ماری ہیں لیکن ابھی تک میرا لوڑا کھڑا ہے اس لیے تم اگر بچنا چاہتی ہو تو سیکس کی بات نہ کرنا ورنہ میری نائٹی کا تنبو تو تمہیں دکھائی دے ہی رہا ہو گا؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو اس نے بھی میرا لوڑا پکڑتے ہوئے کہا کہ میں بھی تو آپ جیسے تگڑے لوڑے والوں کو روم سروس پرووائڈ کرتی ہوں چلیں دیکھتی ہوں کہ آپ میں کتنا دم ہے؟ یہ کہہ کر اس نے نائٹی ہٹا کر میرا پھنکارتا ہوا لوڑا اپنے منہ میں ڈال لیا اور چوپا لگانے لگی۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ رشین ہے اور لازماً گانڈ مروائے گی۔ وہی ہوا کہ تھوڑا چوپا لگانے کے بعد وہ کتیا بن گئی اور اس نے اپنی گانڈ پر تھوک لگا کر میرا لوڑا اپنی گانڈ کی تنگ موری پر سیٹ کیا اور پیچھے کو زور لگایا اور میں نے جب آگے کو زور لگایا تو میر لوڑا اس کی گانڈ کے حسین غار میں اترتا چلا گیا اور وہ سسکاری لے کر رہ گئی۔ اب اس کی گانڈ چد رہی تھی اور میں زور شور سے اس کی گانڈ چود رہا تھا پھر میں نے اسے نیچے لٹالیا اور ایک بار گانڈ میں اور ایک بار پھدی میں ڈالنا شروع کیا۔ میں نے اسے کوئی 40 منٹ چودا ہو گا کہ اس نے کہا کہ تم واقعی بہت اچھی چدائی لگاتے ہو اس لیے میں تمہیں مزید سروس پرووائڈ کروں گی اور چند دن قبل میری ایک بھتیجی رشیا سے آئی ہے اور وہ بالکل کنواری ہے میں کوشش کروں گی کہ اسے منا لوں اور اس کی سیل ٹوٹتی ہوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں۔ اس کی ماں کو پیسے کی ضرورت ہے اس لیے اس کی ماں کو تمہیں کچھ پیسے دینے ہوں گے لیکن ہوٹل والوں کو علم نہیں ہو گا کہ اسے میں لائی ہوں تا کہ انہیں کمیشن نہ دینا پڑے اور میں کوشش کروں گی کہ دو تین سال میں اسے پرائیویٹ گاہکوں کو ہی دوں تا کہ اس کی ماں کو جتنے پیسوں کی ضرورت ہے وہ پوری ہو جائے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کتنے پیسوں کی ضرورت ہے تو وہ کہنے لگی یہ بات بعد میں کریں گے فی الحال میں چلتی ہوں۔ تم اپنی سالی کو جگاؤ اور ناشتہ کر لو۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دس منٹ کی مزید چدائی لگا کر اس کے منہ میں ڈسچارج ہو گیا۔ جاری
More from Urdu
Published by