بیٹے کی آرزو قسط نمبر 32


Best try on Chrome browser.

میں نے بچھی سے کہا کہ جہاز کو اڑنے تو دو۔ کہنے لگی کہ میرا جہاز تو کب سے اڑنے کو تیار ہے میں اس کو ذرا سنبھال لوں پہلے۔ اتنے میں اعلان ہوا کہ بیلٹس باندھ لیں ہم نے بیلٹس باندھی لیں اور جہاز نے ٹیکسی کرنا شرع کر دیا۔ جیسے ہی جہاز اڑا لوگوں نے بیلٹس کھول دیں لیکن بچھی نے کمبل اوپر کر کے میری گود میں سر رکھ دیا اور میرا لن منہ میں ڈال کر اس کی ٹوپی پر اپنی زبان پھیرنے لگی اور کبھی پوری ٹوپی منہ میں ڈال کر لولی پاپ کی طرح میرا لُلا چوسنے لگی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے پہلے کبھی کسی کا چوپا لگایا ہے؟ کیونکہ تم تو بڑی ایکسپرٹ لگ رہی ہو۔ توکہنے لگی کہ نہیں آپ اور باجیوں کی ویڈیو دیکھ دیکھ کر میں نے ایسا کرنا سیکھ لیا ہے ورنہ یہ میری زندگی کا پہلا لوڑا ہے جسے میں نے اس طرح دیکھا، پکڑااور منہ میں ڈالا ہے اور یہی میری زندگی کا پہلا لوڑا ہو گا جو میری چوت کی سیل کھولے گا اور اسی لوڑے کو میں اپنے پہلے بچے کاباپ بناؤں گی۔ میں نے سوچا کہ بچھی کے ارادے تو بڑے زبردست ہیں جو میرے لیے ایک خوشی کی خبر ہیں۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ تین سیٹوں میں سے ایک سیٹ خالی تھی اور ہم دو تھے اس لیے بچھی نے نیم دراز ہونے کے انداز میں ایک سیٹ پر اپنی ٹانگیں رکھ لیں اور سر میری گود میں رکھ دیا اور لیٹ گئی۔ سر کو گود میں رکھنے کی وجہ صاف تھی کہ وہ میرے لوڑے پر مر مٹی تھی اور سارا سفر وہ اسے منہ میں لیے رکھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں ائر ہوسٹس آئی اور پوچھنے لگی کہ کیا پیئیں گے اور مسکرا کر کہنے لگی کہ لگتا ہے کہ میڈم کی طبیعت خراب ہے اس لیے لیٹ گئی ہیں بہرحال پوچھ لیجیے کہ کیا کھانا ہے اور کیا پینا ہے؟ میں نے دل میں سوچا کہ میڈم نے تو جو کھانا ہے یا پینا ہے وہ اس کے منہ میں ہے۔میں نے کہا کہ مجھے سادہ پانی اور ایک کپ چائے دے دیں اور کھانے میں جو بھی ہو گا ہم کھالیں گے اور میڈم کے لیے کوک اور کھانا دے دیں۔ ائر ہوسٹس پوچھ کر مسکراتی ہوئی ہونٹوں پر زبان پھیرتی چلی گئی جیسے اسے سب معلوم ہو کہ میڈم کو جو چاہیے تھا وہ اس کے منہ میں ہے لیکن ائر ہوسٹس نہیں جانتی تھی کہ یہ میڈم نہیں ہے بلکہ ایک کنواری پھدی ہے جس کی سیل دوبئی جا کر آج رات میں کھلنی ہے۔ یہ سوچ کر میرا لوڑا مزید پھنکارنے لگا اور بچھی مزید خوش ہو گئی۔اس کے منہ کا حلقہ میرے لوڑے کے گرد تنگ ہو گیا تھا اور وہ بڑے ماہرانہ انداز میں بغیر دانت لگائے میرے لوڑے کا چوپا لگا رہی تھی۔ اتنے میں ائر ہوسٹس نے کھانا پروس دیا۔بچھی کو میں نے اٹھایا تو بچھی نے سیدھا میرے ہونٹوں پر کس دی۔ جسے دیکھ کر ائرہوسٹس مسکرائی اور کہنے لگی کہ میڈم کھانا کھا لیں پھر آرام سے جو چاہے کر لیجے گا۔ بچھی بھی مسکرائی اور کہنے لگی کہ جناب! صبر نہیں ہوتا ہمارے صاحب ہیں ہی اتنے پیارے اور اچھے۔

خیر ہم نے کھانا کھایا اور پھر بچھی کہنے لگی کہ ذرا جہاز کی سیر کی جائے تو میں اسے لے کر جہاز کے بالکل پیچھے والے حصے میں چلا گیا اور وہاں جا کر بچھی نے مجھے پھر دبوچ لیا اور لگی کسنگ کرنے میں نے کہا کہ یہاں ائر ہوسٹسز دیکھ رہی ہیں تو کہنے لگی کہ کیا ہوا میں نہیں رہ سکتی مزید۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے کرتی رہو جو کرنا ہے۔ ائرہوسٹس نے دیکھا اور کہا کہ صاحب اپنی سیٹ پر جا کر کریں جو کرنا ہے یا پھر اس سپیشل والے واش روم میں چلے جائیں جو ہم ائر ہوسٹسز کے لیے مخصوص ہے تو بچھی نے فورا دروازہ کھولا اور اندر گھس گئی میں بھی اس کے پیچھے ہی اندر گھس گیا۔ اندر جاتے ہی ہم نے کسنگ دوبارہ جاری کر دی۔ بچھی نے میرا لوڑا پینٹ کی زپ سے نکال لیا اور چوسنے لگی اتنے میں دروازہ کھلا اور ائر ہوسٹس نے اندر جھانکا اور کہنے لگی کہ میری کسی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہو۔ جس پر بچھی نے کہا کہ آ جاؤ اور مجھے چاٹ لو۔ میں بچھی کی اس جرات پر حیران رہ گیا۔ مجھے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ بچھی کنواری ہے۔ ائرہوسٹس تو پہلے ہی آدھی اندر تھی اس نے اندر آتے ہی بچھی کو اٹھایا اور شلوار اتار کر ٹانگیں کھول کر کموڈ پر بٹھا دیا اور کہنے لگی کہ میں اس وقت سے دیکھ رہی ہوں میڈم کہ آپ نے صاحب کا لوڑا منہ میں ڈالا ہوا ہے۔ لگتا نہیں کہ آپ شادی شدہ ہیں کیونکہ شادی شدہ لڑکی ایسی نہیں ہوتی۔ میں مسکرایا اور بولا کہ تم نے ٹھیک پہچانا یہ میری سالی ہے اور ابھی سیل بند مال ہے اس کی سیل توڑنے کے لیے اسے دوبی لے کر جا رہا ہوں اور یہ اتنی گرم ہے کہ یہیں شروع ہو گئی ہے۔ یہ سنتے ہی ائرہوسٹس بولی تو پھر ٹھیک ہے میں آج رات آپ لوگوں کے ساتھ ہوٹل میں ٹھہروں گی اور دیکھوں گی کہ ایک بہنوئی اپنی سالی کی سیل کیسے توڑتا ہے۔ اچھا کیا آپ نے مجھے بتا دیا ورنہ میں میڈم کو ایسا چوسنے والی تھی کہ اگر یہہ کنواری نہ بھی ہوتی تو اس کا خون نکال دیتی۔ پھر وہ بچھی سے بولی کہ مس احتیاط کریں کیونکہ یہ نظارہ ہوٹل کی چادر کو اپنے خون سے لال کرنے والا ہوٹل چل کر دیکھنے میں زیادہ مزہ آئے گا۔ پھر اس نے بچھی کی کسنگ شروع کر دی اور مجھے بھی شامل کر لیا اور اب ہم تینوں ایک دوسرے کی زبان چاٹ اور چوس رہے تھے۔ میرے لیے پہلا موقع تھا کہ کسی ائر ہوسٹس کے ساتھ سیکس کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ میں نے غنیمت جانا اور اس کے بڑے بڑے ممے بھی دبانے شروع کر دیئے۔ تھوڑی دیر کسنگ اور ممے دبانے کے بعد ائرہوسٹس نے میرے لوڑے کا چوپا لگایا اور ایسا زبردست کہ میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔تھوڑی دیر بعد ائر ہوسٹس کہنے لگی کہ صاحب تو بڑے پکے ہیں میرے اس چوپے کے سامنے کوئی مرد سے مرد بھی تین چار منٹ سے زیادہ نہیں نکالتا لیکن بچھی تمہارے بہنوئی صاحب تو ٹس سے مس نہیں ہو رہے اس کا مطلب ہے کہ آج را ت میری بھی رنگین ہونے والی ہے۔ میں نے ائرہوسٹس کو بتایا کہ میں ایک ہی بیڈ پر اپنی بیوی اور اس کی بڑٰ بہن کو ساری ساری رات چودتا ہوں اور پھر مجھے ڈسچارج کرنا دونوں بہنوں کے لیے مسئلہ ہوتا ہے۔ تم بھی آج رات آزما کر دیکھ لو۔ تو ائرہوسٹس میرا لوڑا حلق میں لے جا کر باہر نکلاتے ہوئے بولی کہ صاحب میں نے دیکھ لیا اور جانچ بھی لیا بس آج رات یہ برج میرے اندر ہی گرے گا فکر نہ کریں میں آپ کو مایوس نہیں کروں گی۔ اس کے بعد ہم اپنی سیٹ پر آ گئے اور آدھے گھنٹے کی مزید فلائٹ کے بعد جہاز لینڈ کر گیا اس سے پہلے میں ائر ہوسٹس کو ہوٹل کا نام اور نمبر دے چکا ہوا تھا۔ جاری

This بیٹے کی آرزو قسط نمبر 32

More from Urdu

Published by